مناقبِ حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما..

مناقب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما حسنین کریمین رضی اللہ عنھما جنت کے جوانوں کے سردار 1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الحسن و الحسين سيد اشباب اهل الجنة حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (جامع الترمذی، 2 : 218) خاتون جنت کے فرزندان ذی حشم مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لخت جگر امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا گیا ہے اور یہ فرمانا ہے تاجدار کائنات نبی آخر الزمان رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔ حسنین کی محبت، محبت رسول ہے 2۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے : عن أبی هريرة رضي اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من أحبهما فقد أحبني و من أبغضها فقد أبغضني يعني حسنا و حسيناً. حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (مسند احمد بن حنبل، 2 : 288) تاجدار عرب و عجم حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے جس نے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ ذرا غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھنے والے کا کہاں ٹھکانہ ہے؟ اس کے دین اور ایمان کی کیا وقعت ہے؟ باری تعالیٰ , حسنین کریمین سے تو بھی محبت کر 3. عن عطاء ان رجلاً اخبره أنه رأی النبی صلی الله عليه وآله وسلم يضم اليه حَسَناً و حسيناً يقول اللهم أني أحبها فأحبها. حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا ’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر،، (مسند احمد بن حنبل، 5 : 369) بارگاہ خداوندی میں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں معطر اور معتبر لبوں پر دعائیہ کلمات مہک رہے ہیں کہ باری تعالیٰ تو بھی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنی محبت کا سزاوار ٹھہرا، یہ دعائیہ کلمات بھی حضور رحمت عالم کے لب اقدس سے نکلے کہ اللهم انی احبهما فاحبهما ..... فمن احبهما فقد احبنی، مولا ! مجھے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ سے بڑا پیار ہے تو بھی ان سے پیار کر۔ جو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے پیار کرتا ہے گویا وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔ دوش پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سواری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لاڈلے نواسوں سے کتنی محبت تھی وہ انہیں کتنا چاہتے تھے شاید آج ہم اس کا اندازہ نہ کرسکیں کیونکہ ہم جھگڑوں میں پڑگئے ہیں، حقیقتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکی ہیں، حقائق کا چہرہ گرد آلود ہے، آئینے دھند میں لپٹے ہوئے ہیں حالانکہ خلفائے راشدین اور اہل بیت نبوی رضی اللہ عنھم اخوت اور محبت کے گہرے رشتوں میں منسلک تھے۔ خاندان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام کی فضائے نور قلب و نظر پر محیط تھی۔ مولا علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر، اصحابِ رسول کی آنکھوں کا تارا تھے۔ 4. عن عمر يعني ابن الخطاب قال رأيت الحسن والحسين علي عاتقي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقلت نعم الفرس تحتکما فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونعم الفارسان حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین دونوں کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کتنی اچھی سواری تمہارے نیچے ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاً فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔ (مجمع الزوائد، 9 : 182) (رواه ابو يعلي في الکبير ورجاله رجال الصحيح) وہ منظر کیا دلکش منظر ہوگا۔ جنت کے جوانوں کے سردار شہزادہ حسن اور شہزادہ حسین اپنے نانا جان کے مقدس کندھوں پر سوار ہیں، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ یہ روح پرور منظر دیکھتے ہیں اور شہزادوں کو مبارکباد دیتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے ہیں، شہزادو! تمہارے نیچے کتنی اچھی سواری ہے۔ فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے : عمر! دیکھا نہیں سوار کتنے اچھے ہیں؟ وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما، جنہیں آقائے دوجہاں کے مقدس کندھوں پر سواری کا شرف حاصل ہوا اور وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنہیں چوسنے کے لئے اپنی زبان مبارک عطا کی، جنہیں اپنے لعاب دہن سے نواز، جنہیں اپنی آغوش رحمت میں بھلایا۔ حالت نماز میں پشت اقدس کے سوار 5. عن ابی هريرة رضي اﷲ عنه قال کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء فاذا سجد وثب الحسن والحسين علي ظهره فاذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه أخذاً رقيقاً و يضعهما علي الارض فاذا عاد عادا حتي قضي صلوته. فاقعدهما علي فخذيه. حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا۔ (مسند احمد بن حنبل، 2 : 513) یہ سجدہ خدا کے حضور ہو رہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں ہیں، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے دونوں شہزادوں کو تھام لیا کہ کہیں یہ معصوم شہزادے نیچے نہ گر جائیں اور بڑی احتیاط سے انہیں زمین پر بٹھا دیا۔ حسن اور حسین نماز کے دوران پشت مبارک پر چڑھے رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں احتیاط سے انہیں اتارتے رہے حتی کہ نماز مکمل ہوئی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں شہزادوں کو اپنے آغوش محبت میں سمیٹ لیا۔ جن کے لئے سجدہ طویل کردیا گیا 6. عن أنس قال کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يسجد فيحبئي الحسن و الحسين فيرکب ظهره فيطيل السجود فيقال يا نبي اﷲ أطلت السجود فيقول ارتحلني ابني فکر هت ان اعجله حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں سجدے میں تھے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین آئے اور پشت مبارک پر چڑھ گئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کی خاطر) سجدہ طویل کردیا (نماز سے فراغت کے بعد) عرض کیا گیا۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا سجدہ طویل کرنے کا حکم آگیا۔ فرمایا نہیں میرے دونوں بیٹے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میری پشت پر چڑھ گئے تھے میں نے یہ ناپسند کیا کہ جلدی کروں۔ (مسند من حديث عبدالله بن شداد، 3 : 495) (مجمع الزواند، 9 : 181) یعنی امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم جب حالت نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصداً سجدہ طویل کردیا تا کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنھم گر نہ پڑیں ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔ یہ دونوں شہزادے حضرت علی شیر خدا اور خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا کے فرزندان ارجمند تھے۔ لیکن یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دنیا کو اپنے قول و عمل سے بتا دیا کہ علی اور فاطمہ سلام اللہ علیھما، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میرے بھی لخت جگر ہیں یہ میری نسل سے ہیں، یہ میری ذریت ہیں اور فرمایا ہر نبی کی اولاد کا نسب اپنے باپ سے شروع ہوکر دادا پر ختم ہوتا ہے مگر اولاد فاطمہ کا نسب بھی میں ہوں وہ میرے بھی لخت جگر ہیں۔ 7. فاطمة مضغة منی يقبضني ماقبضها ويبسطني ما بسطها و ان الانساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي و سببي و صهري. فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے۔ 1. مسند احمد بن حنبل، 4 : 323 2. المستدرک، 3 : 158 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے مشابہت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لخت جگر ہونے کے ناطے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو چونکہ قربانی مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر بنایا گیا تھا اور انہیں ذبح عظیم کی خلعت فاخرہ عطا کی گئی تھی اس لئے امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسم کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے قریبی مشابہت کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد جب لوگوں کو اپنے عظیم پیغمبر کی یاد ستاتی، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی یاد دلوں میں اضطراب پیدا کرتی تو وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے در دولت پر حاضر ہوتے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کی تشنگی کا مداوا کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس نظروں میں سما جاتا۔ صحابہ یہ بھی جانتے تھے کہ نواسہء رسول کو خلعت شہادت سے سرفراز ہونا ہے کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے گ ضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تذکرہ سن چکے تھے اس حوالے سے بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اصحاب رسول کی نگاہوں کا مرکز بن گئے تھے۔

Comments

Popular posts from this blog

نئیں جاندا زمانہ عظمت صدیق دی

حضرت بایزید بسطامی اور فاحشہ عورت کا واقعہ۔