جب ایک گورنر کو قاضی کے سامنے سر جھکانا پڑا...

جب گورنر کو قانون کے سامنے سر جھکانا پڑا تاریخ اسلام میں قاضیوں کا کردار بڑا تابناک رہا ہے۔ وہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کسی بڑی شخصیت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ آج کل کے تو کئی جج حاکم وقت کا اشارہ پاتے ہی حق و انصاف کا خون کرتے اور سمجھتے ہیں کہ عدل سے کام لیا۔ زمانہ قدیم کی اسلامی حکومتوں میں قاضی کی خاص حیثیت تھی۔ وہ انتہائی عزت و احترام کا مستحق سمجھا جاتا۔ قاضیوں نے انتظامیہ کے خلاف فیصلے کرنے میں کوئی پس و پیش نہ کی۔اس دور کے جری قاضی آج جنم لے لیں تو لوگوں کو حصول انصاف میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔چنانچہ کتابوں میں مرقوم ہے کہ کوفہ میں عدالت کا اجلاس ہو رہا تھا۔ قاضی شریک بن عبداللہ مقدمات کی سماعت کر رہے تھے۔ باہر لوگوں کا ہجوم تھا جن کے مقدمات کی شنوائی عدالت میں ابھی ہونی تھی۔ اس ہجوم میں ایک بڑھیا بھی کھڑی تھی جس کے چہرے سے فکر و ملال ٹپک رہا تھا۔ ضعف و مسکنت کے آثار بھی نمایاں تھے۔ جب وہ اپنی باری پر قاضی کے حضور پیش ہوئی تو انھوں نے پوچھا ’’بی بی کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس نے بھرائی آواز اور نمناک آنکھوں سے کہا ’’حکومت وقت نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔ میں اس کی فریاد لیے آپ کے پاس آئی ہوں۔‘‘ قاضی صاحب نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا ’’دریائے فرات کے کنارے میرا کھجور کا ایک باغ تھا جو ہمیں ورثے میں ملا۔ میرے والد فوت ہوئے، تو بھائیوں نے اسے تقسیم کر دیا۔ میں نے اپنے حصے کو دیوار بنا کر علیحدہ کیا اور باغ کی نگرانی و حفاظت کے لیے ایک ملازم رکھ لیا۔ کچھ عرصہ بعد گورنر کوفہ، موسیٰ نے میرے بھائیوں کے حصے خریدے، تو میرے باغ پر حریصانہ نظریں گاڑ دیں۔ چنانچہ اس نے مجھے برملا باغ فروخت کرنے کا کہا، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ ایک روز گورنر موسیٰ چند نوجوانوں کے ساتھ آیا اور میری تعمیر کردہ دیوار گرا دی۔‘‘ یہ واقعہ بیان کر کے اس پریشان عورت نے کہا ’’اے قاضی! میں اب تیرے پاس اپنا حق لینے آئی ہوں۔ میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کرتی ہوں کہ اپنا باغ گورنر موسیٰ کے ہاتھ ہرگز فروخت نہیں کروں گی۔‘‘ قاضی شریک بن عبداللہ نے یہ واقعہ بڑے غور سے سنا۔ جونہی بڑھیا نے بات ختم کی تو قاضی نے لمحہ بھر کے لیے سر جھکایا پھر آواز دی: ’’خادم!‘‘ جب وہ حاضر ہوا تو قاضی نے ایک سمن پر اپنی مہر لگا کر اسے دی اور کہا کہ گورنر موسیٰ کو ساتھ لے کر آئو۔ خادم جب عدالت کا سمن لیے گورنر کے گھر پہنچا اور اسے ساتھ چلنے کو کہا تو وہ لال پیلا ہو گیا۔ غصے کے باعث آنکھوں سے چنگاریاں جھڑنے لگیں۔ اس نے اسی وقت کوتوال شہر کو بلایا اور حکم دیا ’’فوراً قاضی شریک کے پاس جائو اور انھیں میری طرف سے کہو کہ تم بھی عجیب آدمی ہو، ایک بڑھیا کا جھوٹا دعویٰ تم نے تسلیم کر لیا۔ اب مجھے اس دوش بدوش کھڑا کرنے عدالت بلا رہے ہو۔ تمھیں میرے منصب کا کچھ تو لحاظ ہونا چاہیے۔‘‘ وہ کوتوال قاضی شریک کے مزاج سے بخوبی آشنا تھا۔ اس نے عرض کی کہ آپ میری جگہ کسی اور شخص کو بھیج دیجیے لیکن گورنر نہ مانا۔ ناچار اسے جانا پڑا۔ کوتوال نے قاضی شریک کی عدالت میں حاضر ہو کر گورنر کا پیغام دیا۔ قاضی نے اسی وقت سپاہی کو بلا کر حکم دیا کہ اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دو۔ گورنر کو جب پتا چلا کہ قاضی نے کوتوال کو جیل بھیج دیا ہے تو وہ اور سیخ پا ہوا۔ اب اس نے اپنا حاجب (نائب) قاضی کے پاس بھیجا۔ اس نے کہا: ’’قاضی صاحب! کوتوال تو صرف گورنر کا پیغام لے کر آیا تھا لیکن آپ نے اسے جیل بھیج دیا۔‘‘ قاضی نے اسی وقت سپاہی کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو کہا ’’اس صاحب کو بھی کوتوال کے ساتھ جیل میں بند کر دو۔‘‘ جب گورنر کو پتا چلا کہ قاضی شریک نے حاجب کو بھی جیل بھیج دیا تو زخمی سانپ کی طرح تڑپنے لگا۔ اس کی حالت دیدنی تھی۔ لیکن اسے رہائی کی کوئی صورت بھی نظر نہ آئی۔ آخر اس نے معززین شہر کو بلایا جن میں کئی لوگ قاضی شریک کے دوست احباب بھی تھے اور انھیں کہا ’’آپ قاضی کے پاس جائیے اور انھیں بتائیے کہ آپ نے میری توہین کی ہے۔ میں کوئی عام شہری نہیں کہ عدالتوں میں حاضری دیتا پھروں۔ پھر انھوں نے میرے پیغام بروں کو بھی جیل میں ڈال دیا۔‘‘ معززین کوفہ اور قاضی شریک کے دوستوں نے انھیں گورنر کا پیغام پہنچایا۔ قاضی صاحب کو غصہ آ گیا۔ انھوں نے حضرات سے مخاطب ہو کر کہا: ’’تم لوگ مجھے ایسی بات کہنے آئے ہو جسے کہنے کا تمھیں کوئی حق حاصل نہیں۔‘‘ پھر انھوں نے خدام کو آواز دی اور کہا ’’ان سب کو پکڑ کر جیل میں ڈال دو۔‘‘ انھوں نے حیرانی سے پوچھا کہ آخر ہمارا جرم کیا ہے؟ قاضی نے جواب دیا ’’تم لوگ فتنہ ہو۔ حق کی راہ میں مزاحم اور قوانین شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ بن رہے ہو۔ تمھاری سزا قید ہی ہے تا کہ تم آئندہ کسی ظالم کے پیغام بر نہ بن سکو۔‘‘ گورنر موسیٰ کو جب قاضی شریک کے اس حکم کا پتا چلا تو وہ غصہ سے لال بھبوکا ہو گیا۔ فوراً اپنا گھڑسوار دستہ لیے جیل خانہ پہنچا اور اپنے ان تمام ساتھیوں کو رہا کر دیا جنھیں قاضی نے جیل میں قید کیا تھا۔ اگلے روز صبح قاضی صاحب عدالت لگائے بیٹھے تھے کہ داروغہ جیل حاضر ہوا اور گزشتہ روز کی ساری روداد گوش گزار کر دی۔ بتایا کہ گورنر موسیٰ نے ان سب قیدیوں کو رہا کرا لیا جنھیں آپ نے جیل بھجوایا تھا۔ قاضی صاحب نے جونہی یہ سنا فوراً کھڑے ہوئے۔ عدالت برخواست کر دی اور گھر پہنچے۔ غلام سے کہا ’’میرا سامان گھر پہنچا دو۔‘‘ غلام نے پوچھا ’’کیا جناب منصب عدالت چھوڑ دینا چاہتے ہیں؟‘‘ قاضی نے جواب دیا: ’’بخدا امیر المومنین نے زبردستی یہ منصب اس شرط پر ہمارے سپرد کیا تھا کہ وہ یا ان کا کوئی اہلکار عدالت کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا۔ آج یہ مداخلت ہو چکی، لہٰذا یہ منصب انھیں لوٹانے جا رہا ہوں۔‘‘ گورنر موسیٰ کو جب یہ خبر ملی کہ قاضی شریک رحمہ اللہ نے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ بغداد خلیفہ کے پاس جا رہے ہیں، تو اب وہ گھبرایا۔ چنانچہ اس نے فوراً فوجی دستہ ساتھ لیا، قاضی کو بغداد کے راستہ میں جا لیا اور لگا منت سماجت کرنے۔ عرض کی ’’آپ واپس تشریف لے چلیے اور اپنے فرائض ادا کیججیے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جو کچھ آپ چاہیں، وہی ہو گا۔‘‘ قاضی نے کہا ’’جب تک وہ سب لوگ جیل نہیں جاتے جو کل تو نے رہا کرائے ہیں، میں ہرگز واپس نہیں جائوں گا۔ ورنہ امیر المومنین کے دربار میں پہنچ کر جو بوجھ انھوں نے میرے کندھوں پر لاد رکھا ہے، ان کی خدمت میں رکھ دوں گا۔‘‘ گورنر موسیٰ نے فوراً شرط مان لی اور ان سب لوگوں کو فوری طور پر جیل بھجوا دیا۔ اب قاضی صاحب نے خدام سے فرمایا کہ گورنر کی سواری کی لگام پکڑ کر انھیں میری عدالت میں حاضر کرو۔ گورنر پھر کی عدالت میں مظلوم بڑھیا کے ساتھ کھڑا کیا گیا۔ قاضی نے اس عورت سے کہا: ’’بی بی! فریق ثانی حاضر ہے، جو کچھ کہنا ہے، بے خوف ہو کر کہو۔‘‘ عورت نے تمام داستان دہرائی۔ اب قاضی نے گورنر سے پوچھا: ’’اس خاتون نے جو دعویٰ دائر کیا ہے، اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ گورنر نے جواب دیا ’’یہ بالکل درست کہتی ہے۔‘‘ قاضی نے کہا ’’جو دیوار آپ نے گرائی ویسی ہی نئی دیوار فوراً بنوا دیجیے۔‘‘ چناںچہ حکم کی تعمیل کی گئی۔ بڑھیا قاضی کو دعائیں دیتی چلی گئی۔ یوں قاضی شریک بن عبداللہ نے حق و انصاف کی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ کر دیا۔

Comments

Popular posts from this blog

نئیں جاندا زمانہ عظمت صدیق دی

حضرت بایزید بسطامی اور فاحشہ عورت کا واقعہ۔