ایک ایسا واقعہ..... جِسے پڑھ کر آپ کا دِل مچل جائیں گا. اور آپ سُبحان اللہ کہنے پر مجبور ہو جائیں. دوستوں کے ساتھ بھی شئیر کریں..
پچھلی صدی جو بیسویں صدی عیسوی کہلاتی ہے....... ١٩٣٠- ١٩٣١,,,, کے اوائل میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا..... جو دینی فکر و فہم رکھنے والے افراد کے لئے تو اہم تھا ہی,,,, لیکن عام انسانوں بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی خاص اہمیت اختیار کر گیا............
اس وقت کے عراق کے شاہ ,,,,,, شاہ فیصل اول کو خواب میں صحابی رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کی زیارت ہوئی...... جنہوں نے شاہ سے فرمایا.... کہ میرے اور میرے ساتھی کی قبروں میں پانی آ رہا ہے ....... ہمیں یہاں سے منتقل کرو.......
ان کے ساتھی صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ تھے...... دونوں کی قبریں دریا دجلہ کے کنارے تھیں- حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ احد کے موقع پر مسلمان عورتوں کے نگران تھے ........ اور صحابی "حضرت جابر بن عبداللہ" مشہور صحابئ رسول "حضرت عبداللہ بن جابر رضی الله عنہ" کے بیٹے تھے...... اور بیت رضوان اور حجہ الودع کے موقع پر نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے ساتھ موجود رہے........
غرض شاہ فیصل اول نے اسی وقت مفتی اعظم سے مشوره کیا....... جنہوں نے فتویٰ دیا....... کہ ہمیں ان صحابہ کے اجسام محفوظ جگہ پر منتقل کردینے چاہیئں....... فوری طور پر اس وقت عراق کے وزیراعظم نوری السید پاشا سے رابطہ کیا گیا........ جنہوں قبر کشائی کی منظوری دے دی........ لیکن وزیر اعظم نے محکمہ تعمیرات کو پہلے اس بات کی تصدیق کے لئے بھیجا,,, کہ آیا!! واقعی دونوں اصحاب کی قبروں میں پانی رس رہا ہے یا نہیں......
تصدیق ہو گئی,,, کہ دونوں قبروں کے گرد دریا دجلہ کا پانی رس رہا تھا...... تصدیق ہونے پر حکام کی طرف سے یہ اعلان کردیا گیا....... کہ دونوں اصحاب رسول کی فوری قبر کشائی کی جائے گی........ جو زیارت کرنا چاہے آ سکتا ہے......
یہ حج کا زمانہ تھا,,, اس لئے دوسرے مسلم ممالک کے حکام اور لوگوں نے درخواست کی..... کہ قبرکشائی حج کے اختتام پر کی جائے...... جسے حکام نے قبول کیا.... اور طے پایا..... کہ حج کے فوراً بعد ان جلیل القدر صحابہ کی قبر کشائی کا عظیم کام شروع کیا جائے گا.......
حج گزرتے ہی دونوں اصحاب رسول کی قبر کشائی شروع ہو گئی....... اس وقت کی خبروں کے مطابق تقریبآ پانچ لاکھ نفوس کا مجمع ان صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی زیارت کرنے کے لئے جمع تھا...... جن میں مشہور مسلم ممالک کے فرماروان سمیت غیر مسلم ممالک کے مندوبین بھی موجود تھے...... قبریں کھولی گئیں...... دونوں اصحاب رسول کے اجسام حیرت انگیز طور پر کفن سمیت محفوظ تھے....
وہاں موجود لوگوں کا بیان تھا..... کہ اصحاب رسول کی آنکھیں نیم وا تھیں...... اور ان دونوں اصحاب کی آنکھوں میں ایک عجیب پرسرار چمک تھی..... کہ دیکھنے والا زیادہ دیر ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ نہیں پاتا تھا.......
خبروں کے مطابق وہاں پر موجود ایک یہودی جرمن ڈاکٹرنے اپنے اوراپنے ساتھ اور بہت سے دوسرے غیر مسلم مندوبین کے ساتھ مفتی اعظم کے ہاتھ پر یہ کہہ کراسلام قبول کرلیا...... کہ "جس خدا کے نبی کے اصحاب کی آنکھوں کی چمک تیرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی- وہ نبی خود کیا چیز ہوگا "-
بعد میں دونوں اصحاب رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ اور حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ کو احترام کے ساتھ موجودہ سلمان پارک میں حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا.......
یہ دور جدید کا ایسا واقعہ ہے کہ ملحد لوگ بھی اس کی کوئی سائنسی توجیہ پیش نہیں کرپاتے....... کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ان پاک ہستیوں کے اجسام اپنی قبروں میں جوں کے توں تھے اوران کو مٹی نہیں کھا سکی- ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی اس دنیا فانی سے کوچ کیا ہے-
ماشااللہ
ReplyDelete