عورت نے اپنے ہی بیٹے کو پہچاننے سے انکار کر دیا.. پھر مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایسا فیصلہ کیا.. کہ آپ بھی پڑھ کر بے اختیار "سبحان اللہ" پکار اٹھیں گے..
عاصم بن حمزہ سے روایت ہے. کہ میں نے مدینہ کی گلیوں میں ایک نوجوان کو دیکھا, جو رو رو کر کہہ رہا تھا..
"یااحکم الحاکمین احکم بینی و بین امی"
اے احکم الحاکمین!! میرے اور میری ماں کے درمیان فیصلہ فرما......
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا, اے جوان! تو اپنی ماں سے نفرت کا اظہار کیوں کر رہا ہے؟؟
جوان نے کہا: اے امیرالمؤمنیں!! کیا بتاؤں.. میری ماں نے نو ماہ مجھے اپنے شکم میں اٹھایا.. اور دو سال مجھے دودھ پلایا... اب میں پرورش پا کر جوان ہو گیا ہوں.. اچھے برے کی تمیز بھی کر سکتا ہوں... اپنے, بیگانے ,, دائیں, بائیں کی بھی مجھے پہچان ہے... اب میری ماں مجھے اپنا بیٹا ماننے سے انکار کرتی ہے... ایسا لگتا ہے جیسے اس نے پہلے کبھی مجھے دیکھا ہی نہیں....
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اب تیری ماں کہاں ہے؟؟؟
جوان نے کہا: سقیفہ بنی فلاں میں...
حضرت عمر نے حکم دیا: اس جوان کی ماں کو حاضر کیا جائے....
عورت کو اُس کے چار بھائیوں سمیت حاضر کر دیا گیا.. اور گواہ بھی حاضر ہو گئے.. جنہوں نے گواہی دی, کہ اِس عورت کا کوئی بیٹا نہیں ہے... یہ عورت تو پاکیزہ ہے... اس کا نکاح تک نہیں ہوا.. اور یہ لڑکا جھوٹا ہے, قابلِ مذمت ہے, اور عورت کو خاندان میں ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے...
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جوان کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا:
اے جوان!! یہ کیا کہہ رہے ہیں.. اور تُو کیا کہہ رہا تھا....
جوان نے کہا:: واللہ!! یہ میری ماں ہے, اِس نے نو ماں مجھے شکم میں اٹھایا اور دو سال مجھے دودھ پلایا ہے.. اور اب میرا انکار کرتی ہے...
حضرت عمر نے عورت کی طرف رُخ کرتے ہوئے فرمایا:: اے کنیزِ خدا ! یہ جوان کیا کہہ رہا ہے؟؟
عورت کہنے لگی:: اے امیرالمومنین !! مجھے خدا (عزوجل) کی وحدانیت اور محمدﷺ کی رسالت کی قسم !! میں تو اِس جوان کو جانتی تک نہیں.. کہ یہ کون ہے... یہ مکار, جھوٹا ہے.... یہ میرے خاندان مین مجھے ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے... میں خاندانِ قریش کی ایک شریف بیٹی ہوں.. میرا تو ابھی بیاہ تک نہیں ہوا... ابھی اپنے ہی خاندان میں ہوں.. مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں.....
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تُو اس پر کوئی گواہ رکھتی ہے؟؟
عورت نے کہا: ہاں! یہ آدمیوں کی جماعت ہے.. اُس نے چالیس افراد بطورِ گواہ پیش کیے.. کہ جن لوگوں نے اپنی گواہی پیش کی کہ یہ عورت کنواری ہے.. اور یہ لڑکا جھوٹا ہے..
حضرت عمر نے حکم دیا کہ! اِس نوجوان کو زندان میں ڈال دو.. تب تک گواہوں کی صداقت بھی معلوم ہو جائے گی.. اگر عورت کی صداقت ثابت ہو گئی, تو جوان پر حدِ قذف جاری کی جائے گی...
کارندے جوان کے ہاتھ باندھ کر زندان کی طرف لے جانے لگے, تو راستے میں اُن کو حضرت علی المرتضی (کرم اللہ وجہہ الکریم) نے دیکھ لیا... وہ جوان بھی حضرت علی کو دیکھ کر فریاد کرنے لگا.. یا ابن عم رسول اللہ !! میری فریاد سُنئے گا.. میں مظلوم ہوں... حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے زندان میں قید کرنے کا حکم جاری کیا ہے...
حضرت علی المرتضی (کرم اللہ وجہہ الکریم) سپاہیوں سے فرمایا.. کہ اس جوان کو حضرت عمر کے پاس وآپس لے چلو...
جب سپاہی وآپس لے کر آئے.. تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
کیا میں نے نہیں کہا تھا, کہ اسے زندان میں لے جاؤ؟؟ پھر وآپس کیوں لائے ہو؟؟
انہوں نے کہا... کہ ہم حضرت علی المرتضی کے حکم سے وآپس ہوئے ہیں, نہ کہ اپنی مرضی سے.. اور آپ ہی نے حکم فرمایا ہوا ہے.. کہ حضرت علی کی مخالفت نہ کرنا...
اتنے میں مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) وہاں پہنچے, اور فرمایا: کہ یہ نوجوان جِس عورت کو اپنی ماں بتا رہا ہے. اُس عورت کو میرے سامنے حاضر کرو..
وہ عورت حاضر ہو گئی..
مولا علی نے اُس عورت سے فرمایا: تم اِس کے بارے مین کیا کہتی ہو..
اُس عورت نے وہی باتیں کہی. جو پہلے حضرت عمر کے سامنے کہی تھیں..
پھر لڑکے سے پوچھا: تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟؟
لڑکے نے بھی وہی باتیں کہی.. جو وہ پہلے کہہ چکا تھا..
مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف رُخ کرتے ہوئے فرمایا..
"کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اِن دونوں کے درمیان فیصلہ کروں؟؟
حضرت عمر نے کہا : سبحان اللہ !
میں کیوں نہ اجازت دوں گا؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا ہے, کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
"اقضاکم علی بن ابی طالب"
تم میں سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ہیں....
پھر حضرت علی المرتضی نے اُس عورت سے فرمایا : کیا تیرا کوئی گواہ ہے؟؟
عورت نے کہا! یہ پوری جماعت میری گواہ ہے...
پھر چالیس افراد نے عورت کے حق میں گواہی دی..
حضرت علی نے فرمایا :
آج میں تمہارے درمیان ایسا فیصلہ کروں گا کہ جس سے خدا اور رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل ہو گی...
پھر مولا علی نے عورت سے فرمایا: تیرا ولی کون ہے؟؟
عورت نے کہا: میرے بھائی ہیں..
حضرت علی المرتضی نے اُس کے بھائیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : کیا تم راضی ہو اِس بات پہ کہ میرا فیصلہ تمہارے اور تمہاری بہن کے حق میں ہو؟؟
وہ کہنے لگے.. جی ہاں ! کیوں نہیں؟؟
پھر حضرت علی نے اُس جوان سے فرمایا : کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ میں تیرا بحیثیت باپ کے ہوں؟ اور حسن و حسین ( رضی اللہ عنہما) بحیثیت تیرے دو بھائیوں کے ہوں؟؟
نوجوان نے کہا : ہاں ! مجھے یہ بات قبول ہے..
حضرت علی المرتضی (کرم اللہ وجہہ الکریم) نے فرمایا: اے لوگو !! میں خدا کو گواہ بناتا ہوں, اور حاضرین سے گواہی مانگتا ہوں.. کہ میں چار سو درھم حق مہر مقرر کرتے ہوئے اِس عورت کو اِس جوان کے نکاح میں دیتا ہوں.. اور مہر کی رقم اپنے مال سے خود ادا کرتا ہوں.. اے قنبر! جلدی جاؤ اور درھم لے کر آؤ...
جناب قنبر ( رضی اللہ عنہ) نے درھم حاضر کر دئیے..
حضرت علی نے فرمایا :: درہم اِس نوجوان کے دامن میں ڈال دو....
پھر اُس نوجوان کو حکم دیا... کہ تُو اپنی بیوی کے دامن میں یہ درھم بطورِ حق مہر ڈال دے.. اور اِس کا ہاتھ پکڑ کے اس کو اپنے گھر لے جا... اور اِس سے ہمبستری کر.. پھر میرے پاس جنابت کا غسل کر کے آنا...
جب عورت نے یہ الفاظ سُنے تو فریاد کرنے لگی..
" الامان الامان یا ابن عم رسول اللہ"....
مین نہیں چاہتی کہ آگ میں جلوں, خدا کی قسم یہ میرا بیٹا ہے....
حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : تو پہلے کیوں اِس کو بیٹا ماننے سے انکار کر رہی تھی؟؟
عورت نے کہا: یا ابن عم رسول اللہ::
میں قصوروار نہیں.. کیونکہ میرا نکاح ایک انتہائی نالائق اور کمینے شخص سے کیا گیا.. اور اُس سے یہ لڑکا پیدا ہوا... پھر میرا شوہر مَر گیا... جب یہ حدِ بلوغ کو پہنچا تو میرے بھائیوں اور لوگوں نے مجھے کہا کہ تُو اِس کی فرزندی کا انکار کر دے.. تو میں نے اپنے بھائیوں کے خوف کی وجہ سے اِس لڑکے سے انکار کر دیا...
خدا کی قسم : یہ میرا ہی بیٹا ہے, اور میرا دل اِس کے لیے بےچین ہے... اور غمزدہ ہے...
پھر عورت اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر گھر کو روانہ ہو گئی...
Comments
Post a Comment